اس کا پانی اس قدر آلودہ ہو چکا ہے کہ لوگ اب اسے ایک گندے پانی کا نالہ قرار دے رہے یں۔
تاریخ میں 28 ستمبر 1908 کا دن ایک ایسا سیاہ باب ہے جسے فراموش نہیں کیا جاسکتا کیونکہ اس دن حیدرآباد میں طغیانی اور طوفانی بارش کی وجہ سے تقریباً 50 ہزار لوگوں ہلاک ہوگئے تھے۔
طغیانی کی تباہ کاریوں کے بعد نظام میر عثمان علی خان بہادر نے 1911ء میں عثمان ساگر، حمایت ساگر اور 70 کیلومیٹر پر واقع موسی ندی کی تعمیر کی تھی۔
آج موسی ندی اپنی خوبصورتی پوری طرح کھو چکی ہے اور اس میں شہر کا آلودہ پانی جمع ہو رہا ہے۔
جیسے جیسے موسی ندی کے اطراف آبادیاں بستی گئیں وہیں عمارتیں اور صنعتیں قائم کی گئی جس کیو جہ سے ندی کا رقبہ سکرتا گیا۔ پہلے ندی میں پانی کی موجیں رواں دواں ہوتی تھیں آج موسی ندی ایک کچرے گندے نالے میں تبدیل ہوچکی ہے۔
فورم فار بٹر حیدرآباد کی جانب سے 28 ستمبر کو افضل پارک میں واقع املی کے درخت (1908 میں طغیانی کے وقت 150 افراد نے اس درخت پر چڑھ کر اپنی جان بچائی تھی) کے قریب ایک پروگرام منعقد کیا- پروگرام کا مقصد حیدرآباد کی تاریخ کو نئی نسل تک پہنچانا تھا۔
اس موقع پر چیرمین فورم وید کمار نے کہا کہ تاریخی موسی ندی کو نظرانداز کیا جار ہے جبکہ انہوں نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ موسی ندی کی تزئین نو اور صفائی کےلیے اقدامات کریں۔